مُحبّت میں ایسے بھی لمحات آئے
لہو ہوگیا دل مگر مُسکرائے
کچھ ایسی ادا سے مقابل وہ آئے
کئی بار اپنے قدم ڈگمگائے
ابھی وہ مِرے دل سے واقف نہیں ہیں
کوئی لاکے آئینہ اُن کو دکھائے
شبِ وعدہ یُوں دل کو سمجھا رہا ہوں
وہ آتے ہی ہوں گے وہ آئے وہ آئے
بہارو خزاں کو بیک وقت دیکھا
میں رویا ادھر وہ اُدھر مُسکرائے
وہ اِک لہر سَو100 ناخداؤں سے بہتر
سفینہ جو طوفان سے ساحل پہ لائے
بلا سے یہ دل خاک ہوجائے لیکن
زبانِ محبّت پہ اُف تک نہ آئے
زبان سے مِری پہلے سُن لے کہانی
ضروری نہیں ہے تِرا نام آئے
میں وہ رہروِ راہِ الفت ہوں اخگرؔ
جو منزل پہ بھی اپنی منزل نہ پائے
٭
No comments:
Post a Comment