ترِے ہاتھ تیغِ جفا چاہتا ہوں
مِرا قرض بھی ہو ادا چاہتا ہوں
بقدرِ طلب حوصلہ چاہتا ہوں
تجھے اک نظر دیکھنا چاہتا ہوں
فنا چاہتا ہوں مگر تیرے ہاتھوں
بہ الفاظِ دیگر بقا چاہتا ہوں
تجھے حدِّ احساس سے دور کرکے
تِرے قرب کی انتہا چاہتا ہوں
بڑی سر پھری ہے ہوائے مُحبّت
تِری زلف سے مشورہ چاہتا ہوں
نہ رک میری آنکھوں میں اے چھُپنے والے
تجھے اپنے دل تک رسا چاہتا ہوں
بنیں لاکھ اخگرؔ وہ انجان لیکن
وہ سب جانتے ہیں میں کیا چاہتا ہوں
٭
No comments:
Post a Comment