کم ہیں ایسے جو سُوئے دار نکل جاتے ہیں
بیشتر لوگ اُن آنکھوں سے بہل جاتے ہیں
اُن کو رکھتے ہیں کبھی دل میں کبھی آنکھوں میں
مے وہی رہتی ہے پیمانے بدل جاتے ہیں
کوئی نظروں سے جو گرجائے تو اٹھتا ہے کہاں
اشک تو پھر بھی سنبھالے سے سنبھل جاتے ہیں
رُخ ہواؤں کا بدلتے ہوئے دیکھیں جو ذرا
ناخداؤں کے ارادے بھی بدل جاتے ہیں
جب بھی اُس زلفِ پریشاں کی ہوا آتی ہے
لوگ خوشبو کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں
حسرتیں دل میں ہیں اتنی کہ نکلتی ہی نہیں
آج جاتے ہیں یہ مہمان نہ کل جاتے ہیں
اس کی شیرینیء لب کی جو کروں بات اخگرؔ
سارے الفاظ مِرے شہد میں ڈھل جاتے ہیں
٭
No comments:
Post a Comment