شکستہ دل کسی کا ہو، ہم اپنا دل سمجھتے ہیں
تِرے غم میں زمانے بھر کے غم شامل سمجھتے ہیں
ہوئی ہیں اسقدر آسانیوں سے مشکلیں پیدا
ہر آسانی کو ہم اپنی جگہ مشکل سمجھتے ہیں
وہ خود دیکھے مگر اس کو کوئی نہ دیکھنے پائے
تِرا انداز ہم اے پردہء حائل سمجھتے ہیں
کسی کا ہاتھ زخموں پر، کِسی کا ہاتھ گردن میں
مسیحا کون ہے، اور کون ہے قاتل، سمجھتے ہیں
حدِ دل سے تو باہر درد تیرا ہو نہیں سکتا
جہاں تک درد ہے تیرا وہیں تک دل سمجھتے ہیں
مجالِ دید کی مُہلت نہ دیں لیکن یہ کیا کم ہے
وہ ہم کو اپنی بزمِ ناز کے قابل سمجھتے ہیں
تعیّن حُسنِ مقصد کا نہیں اُس کے سِوا کوئی
ٹھہر جائیں جہاں ہم بس اُسے منزل سمجھتے ہیں
کہاں تک ہم مُسلسل رُخ بدلتے جائیں کشتی کا
وہی طوفاں نکلتا ہے، جسے ساحل سمجھتے ہیں
انہیں فُرصت کہاں، یہ بھی غنیمت جانیے اخگرؔ
کہ وہ دل کو کسی تعزیر کے قابل سمجھتے ہیں
٭
No comments:
Post a Comment