کُنجِ قفس میں فِکرِ نشیمن
اور مِری صیّاد سے اَن بَن
محرومی سی محرومی ہے
کوئی ہمارا دوست نہ دشمن
ضبطِ جنوں کی خیر ہو یارب
صبر کا چھُوٹا جائے ہے دامن
پھول بہت تھے لیکن میں نے
کانٹوں سے الجھایا دامن
فکرونظر کے وارث ٹھہرے
فہم سے عاری عقل کے دشمن
میری تن آسانی نے رکھّا
اپنے قفس کا نام نشیمن
سہل نہیں ہے نظمِ گُلستاں
'لاکھ بلائیں، ایک نشیمن'
وُسعتِ صحرا دیکھ کے اکثر
ذہن میں اُبھرا گھر کا آنگن
خوب ہے یہ آئینہ خانہ
آپ کی صورت اپنے درشن
شدّتِ غم سے خشک ہیں آنکھیں
صحراؤں میں جذب ہے ساون
پھُول بہت ہیں ، اور میں اخگرؔ
دیکھ رہا ہوں تنگیء دامن
٭
No comments:
Post a Comment