جو سانس ہے، زنجیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
غم کتنا ہمہ گیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
کیا وقت چھُپائے گا لَہُو اہلِ چمن کا
ہر پھول پہ تحریر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
جو آپ نے پھینکا نہیں اب تک، مِرے دلمیں
پیوست وہی تِیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
مانا کہ ہمہِ رنگ سہی، پھر بھی تِرا حُسن
تصویر ہی تصویر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
!دیوار گرائی گئی، ڈھائی گئی بُنیاد
کیا جذبہء تعمیر ہے میں دیکھ رہا ہوں
چڑھتے ہوئے سُورج کی سیاست کا فسانہ
ہر ذرّے پہ تحریر ہے میں دیکھ رہا ہوں
!ہر چند ہمہ گیر نہیں ذوقِ اسیری
ہر پاؤں میں زنجیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
تفویض ہے نظروں کو مِری عُقدہ کُشائی
جو زُلفِ گِرہ گیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
پیشانیء خورشید ہے جس نام کی تختی
ذرّوں پہ بھی تحریر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
کیا کیا نہِیں کہتی ہے، مِری چشمِ تمنّا
یہ لائقِ تعزیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
جاگا ہوا ہوں مگر اب بھی وہی رات ہے اخگرؔ
کیا خواب کی تعبیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
٭
No comments:
Post a Comment