تم سرِ راہ کبھی مل بھی اگر جاؤ گے
اِک نیا زخم عطا کرکے گزر جاؤ گے
شدّتِ غم نظر انداز تو کرجاؤ گے
لیکن اے دوستو اندر سے بکھر جاؤ گے
خواب شرمندۂ تعبیر کہاں ہوتا ہے
صرف آنکھوں میں لیے خوابِ سحر جاؤ گے
بات سادہ سی ہے نظرونمیں چڑھوگے کیونکر
تم جو خاکمِ بدہن دل سے اُتر جاؤ گے
ہاں یونہی عالمِ آرائشِ مژگاں جو رہا
تم تو نشتر کی طرح دل میں اُتر جاؤ گے
خوب جی کھول کے یارو غمِ دُنیا پہ ہنسو
گرہنسی لب پہ نہ آئے گی تو مرجاؤ گے
ہم سے کیوں دار و رسن پوچھ رہے ہیں اخگرؔ
بزمِ جاناں سے اُٹھو گے تو کدھر جاؤ گے
٭
No comments:
Post a Comment