اس کے دامن پر بکھر جائے ستاروں کی طرح
!خامُشی حال اگر اپنا سُنانا چاہے
خلوتِ جاں میں تِرا درد بسانا چاہے
دِل سمندر میں بھی دیوار اُٹھانا چاہے
پردہ داریٔ مُحبّت کو نبھانا چاہے
دل میں چھُپ کر وہ کہاں سامنے آنا چاہے
اس کے دامن پر بکھر جائے ستاروں کی طرح
!خامُشی حال اگر اپنا سُنانا چاہے
اس سے کیا کوئی کرے آگ بُجھانے کا سوال
وہ تو جذبات میں بس آگ لگانا چاہے
عشق کو فرش بھی کانٹوں کا گوارا ہے مگر
حُسن ہر حال میں اِک آئنہ خانہ چاہے
حُسنِ برہم کے منانے کو ہیں صدیاں درکار
!روز اِک ترکِ تعلّق کا بہانہ چاہے
بن گیا میری محبّت کا حریف اے اخگرؔ
میں جسے چاہوں، اُسی کو یہ زمانہ چاہے
٭
No comments:
Post a Comment