خوشی سے غم بھی گوارا نہیں کیا میں نے
یہ اور بات کہ شکوہ نہیں کیا میں نے
کسی سے ذکرِ تمنّا نہیں کیا میں نے
تمہاری بات کو ہلکا نہیں کیا میں نے
نفس نفس پہ کوئی میرے ساتھ ساتھ رہا
سفر حیات کا تنہا نہیں کیا میں نے
فقط انہی کے تبسّم کا تذکرہ آیا
گُلوں کا ذکر بھی گویا نہیں کیا میں نے
غلط ہے عشق میں اظہارِ آرزو کا سوال
یہ ننگِ عشق گوارا نہیں کیا میں نے
مِری نگاہ تک آئے ہزار غُنچہ و گُل
تمہارے زخم کا سودا نہیں کیا میں نے
اُسی نے زخم ہمارے رفو کیے اخگرؔ
کسی کو اپنا مسیحا نہیں کیا میں نے
٭
No comments:
Post a Comment