بزم کو رنگِ سُخن میں نے دیا ہے اخگرؔ
لوگ چُپ چُپ تھے مِری طرزِ نوا سے پہلے
چونک اٹھتا ہے نفس کی بھی صدا سے پہلے
دل کا یہ حال نہ تھا عہدِ وفا سے پہلے
عشق کی لوَ طلبِ حسن کی محتاج نہیں
ہم نے چاہا ہے تجھے تیری ادا سے پہلے
دل طلب کرتی ہے جب ہم سے کوئی شوخ نظر
مشورہ کرتے ہیں ہم اپنی انا سے پہلے
یہ الگ بات کہ چُٹکی نہ مِرے دل کی کلی
ورنہ گلشن میں تم آئے تھے صبا سے پہلے
دستِ فطرت نے کوئی نقش بنایا ہی نہ تھا
خاک پر آپ کے نقش کفِ پا سے پہلے
صورتِ شمع جو بُجھتے تو ابد ہوجاتے
ہم کہاں تھے ترے دامن کی ہوا سے پہلے
میری اِک سادہ نگاہی کا اثر ہے ورنہ
کون واقف تھا تِرے رنگِ حیا سے پہلے
تیرا غم، دہر کا غم، عشق کا غم، اپنا غم
موت آئی ہے کئی بار قضا سے پہلے
بزم کو رنگِ سُخن میں نے دیا ہے اخگرؔ
لوگ چُپ چُپ تھے مِری طرزِ نوا سے پہلے
٭
No comments:
Post a Comment