حاصلِ اشکِ رواں ہو تو غزل ہوتی ہے
درد آنکھوں کی زباں ہو تو غزل ہوتی ہے
صبح ہونے کا گُماں ہو تو غزل ہوتی ہے
تم سرِ خلوت جاں ہو تو غزل ہوتی ہے
نظم کشمیر کی جھیلوں پر بھی ہوسکتی ہے
تیری آنکھوں کا گُماں ہو تو غزل ہوتی ہے
ایک اِک شعر چمکتا ہے سِتارے کی طرح
سامنے حُسنِ بُتاں ہو تو غزل ہوتی ہے
بات ہی کیا ہے اگر آنکھ کے آنسو تھم جائیں
درد ہر لحظہ رواں ہو تو غزل ہوتی ہے
بات تو جب ہے کہ ہرسانس سے لَو اُٹھنے لگے
روشنی دل میں نِہاں ہو تو غزل ہوتی ہے
آب آجاتی ہے گلہائے سُخن میں کُچھ اور
حُسن بھِی گریہ کِناں ہو تو غزل ہوتی ہے
اپنے احساس کو لفظوں میں سموئے اخگرؔ
ہر نفس زمزمہ خواں ہو تو غزل ہوتی ہے
٭
No comments:
Post a Comment