وفا کو جو نہ سرا ہے وفا شعار نہیں
جو دل کا راز نہ جانے وہ راز دار نہیں
بہار میں ہوں تو اندیشہء خزاں ہے محیط
خزاں میں ہوں تو کچھ اندیشہء بہار نہیں
نفس کی آمد و شُد پر ہے انحصارِ حیات
نفس کی آمدوشُد کا ہی اعتبار نہیں
تِری عنایتِ پیہم کی آرزو ہے مگر
تِری جفائے مُسلسل بھی ناگوار نہیں
یہ کس مقام پر لے آئی بے خودی دل کی
کہ منتظر ہوں مگر کربِ انتظار نہیں
اُسے سُکون کا مفہوم ہی نہیں معلوم
جو دل کسی کی محبّت میں بے قرار نہیں
گُلوں کے لب پہ تبسُّم اگر نہیں اخگرؔ
تو یہ بہار کی توہین ہے بہار نہیں
٭
No comments:
Post a Comment