جو لکیریں اُن کے ماتھے پر نمایاں ہوگئیں
وہ مِرے دل کے تعلّق سے رگِ جاں ہوگئیں
میرے حق میں اور بھی کچُھ دشمنِ جاں ہوگئیں
وہ نگاہیں جو سرِ محفل پشیماں ہوگئیں
ہیں شریعت میں مُحبّت کی وہ حرفِ ناروا
جو اُمّیدیں اشک بن بن کر نُماِیاں ہوگئیں
اُن نگاہوں کی کوئی تشریح ممکن ہی نہیں
کُفر کی حد سے بڑھیں اتنی کہ ایماں ہوگئیں
کُنجِ خلوت میں نہاں تھیں دل کی جو بیتابیاں
آپ کی محفل میں جب آئیں غزل خواں ہوگئیں
اللہ اللہ ان نگاہوں کی اداؤں کا مِزاج
خود ہی آئینہ اٹھایا خود ہی حیراں ہوگئیں
صبح اخگرؔ شام سے بڑھ کر گلے ملنےلگی
اُس کی زلفیں جب مِرے رُخ پر پریشاں ہوگئیں
٭
No comments:
Post a Comment