اشک پلکوں پہ جو ہمارے ہیں
رات کے آخری ستارے ہیں
زخم ہیں، پھول ہیں، ستارے ہیں
سب یہ بخشے ہوئے تمہارے ہیں
اُن کو پوچھے کوئی مِرے دل سے
کتنے سادہ ہیں، کتنے پیارے ہیں
پاؤں کے آبلوں کو مت چھیڑو
دشتِ پُرخار کے سہارے ہیں
اِک تبسّم سے کیا ہو اندازہ
لوگ کتنے غموں کے مارے ہیں
دن وہ پھولوں کو بھی نصیب نہیں
ہم نے کانٹوں پہ جو گزارے ہیں
کیا قیامت بپا ہو اے اخگرؔ
وہ جو کہہ دیں کہ ہم تمہارے ہیں
٭
No comments:
Post a Comment