زخموں کے تازہ پھول کھلائے بہار میں
اتنی سکت کہاں ہے دلِ بے اختیار میں
جائیں گے اہلِ عشق ہتھیلی پہ سر لیے
اب اہتمامِ دار بھی ہے کوئے یار میں
آنکھوں نے خونِ دل سے عجب رنگ بھردیا
پیراہنِ حیات کے نقش و نگار میں
تم کیا گئے کہ فطرتِ موسم بدل گئی
اب کے تو صرف زخم کھِلے ہیں بہار میں
جلتے ہوئے چراغ مہکتا ہوا وجود
کیا کیا خیال آئے شبِ انتظار میں
اُس کے حضور کارِ مُحبّت بھی ہیچ ہے
دل کس شمار میں ہے نظر کس شمار میں
اخگرؔ نظر بچا کے وہ گزرے ہیں بار ہا
پھر بھی کمی نہیں ہے مِرے اعتبار میں
٭
No comments:
Post a Comment