جو ہے تازگی مِری ذات میں، وہی ذکروفکر چمن میں ہے
کہ وجود میرا کہیں بھی ہو، مِری رُوح میرے وطن میں ہے
وہ سُرور نکہتِ گُل میں ہے، نہ وہ کیف صحنِ چمن میں ہے
جو ادائے نزہتِ جانفزا ترے اِک لطیف سُخن میں ہے
تری یاد کی یہ حسیں رمق جو نِکھر رہی ہے شفق شفق
نہ جمالِ غنچہ و گل میں ہے، نہ ہوائے سروسمن میں ہے
جو کشود کارِ طلسم ہے تو فقط ہمارا ہی اسم ہے
وہ گِرہ کسی سے کھُلے گی کیا، جو تِری جبیں کی شکن مِیں ہے
یہ مِرے جنوں کے ہیں ولولے کہ چلاہوں ہاتھ پہ سرلیے
یہ مِرے قدم ہی کی چاپ ہے جو دھمک سی دارورسن میں ہے
یہ وجودِ عشق کی شعلگی، یہ بہار آتشِ عشق کی
ہے مِرے لہو میں رچی ہوئی، مِرے تن میں ہے مِرے من میں ہے
جسے کہیے عشق کی شعلگی، وہ ہے اخگرؔ اپنی حیات میں
ہے جو میرے دل میں دبی ہوئی، وہی آگ میرے سُخن میں ہے
:نوٹ: اگرچہ مطبوعہ "چراغاں" کے دونوں ایڈیشنوں میں مندرجہ ذیل شعر موجود نہیں، جناب صوفی اخگر نے یومِ سرسید مشاعرہ، 2007، میں یہ سنایا
جسے کہیے حاصلِ زندگی، وہ عظیم منصبِ بندگی
تیری جستجو، تیری آرزو، تیرے عشق، تیری لگن میں ہے
٭
No comments:
Post a Comment