لبِ خاموش پر آنے کو اس کا نام آجائے
مگر ضبطِ مُحبّت پر نہ کُچھ الزام آجائے
خدا معلوم میں کیوں اس کو ناکامی سمجھتا ہوں
کسی رہرو کو منزل پر اگر آرام آجائے
اسی اُمّید پر چلتا ہوں رُک رُک کر سُوئے منزل
نہ جانے کس قدم پر آپ کا پیغام آجائے
اسی اُلجھن میں اُس نے اپنے رُخ پر ڈالدیں زُلفیں
کسی صورت سحر کو اعتبارِ شام آجائے
!مجھی پر ہے سرِ محفل نگاہِ ساقیٔ رنگیں
کہیں چھُٹ کر نہ ہاتھوں سے زمیں پر جام آجائے
وہ دِل عرشِ مُعلّیٰ پر جگہ پانے کے قابل ہے
جو اس خودکام دنیا میں کسی کے کام آجائے
اسی اُمّید پر بیٹھے ہیں اخگرؔ بزمِ رنداںمیں
کہ ساقی کے لبوں پر شاید اپنا نام آجائے
٭
No comments:
Post a Comment