عشق میں بے بھَرَم رہ گئے
لوگ قامت سے کم رہ گئے
تُجھ پہ کچھ بھی نہ لکھ پائے لوگ
ہاتھ ہی میں قلم رہ گئے
طے ہُوا کب وفا کا سفر
چل کے بس دو قدم رہ گئے
اس طرح آئے وہ سامنے
بن کے آئینہ ہم رہ گئے
ہم نے اُن کا پتہ پالیا
اور دِیروحرم رہ گئے
زُلف کے پیچ و خم دیکھ کر
وقت کے پیچ و خم رہ گئے
اپنی پلکوں پہ شمعیں لیے
ڈھونڈتے اُن کو ہم رہ گئے
لب پہ اِک پل کو آئی ہنسی
او ر پھر غم ہی غم رہ گئے
اُٹھ کے جاتے بھی اخگرؔ کہاں
کُوئے جاناں مِن ہم رہ گئے
٭
No comments:
Post a Comment