احساں شناس دہر کے کب ہم بھَلا رہے
تیرے قتیل تیرے شہیدِ ادا رہے
گویا شکستہ ساز تھے، ہم آپ کے حضور
شِکوے گزار آئے مگر بے نوا رہے
وہ ترکِ آرزو نہ سہی آرزو سہی
کوئی دیا تو خلوتِ دل میں جلا رہے
ہیں حاصلِ بہار، گریباں کی دھجّیاں
یہ پھینک دوں تو پھر مرے دامن میں کیا رہے
دل بھی تو اُن کا گھر ہے، نظر بھی تو اُن کا گھر
پنہاں کہیں رہے کہیں جلوہ نُما رہے
دیجیے خراج آبلہ پایانِ شوق کو
کانٹوں کا فرش راہِ وفا میں بچھا رہے
اخگرؔ وہ مہرباں تھے تو دنیا تھی مہرباں
دنیا خفا رہے گی اگر وہ خفا رہے
٭
No comments:
Post a Comment