یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ اپنےایوانِ رنگ و بُو میں
ہیں جمع سب مہرو ماہ و انجم، پتا نہیں پھر بھی روشنی کا
کرشمہ یہ بے خودی کا
-
نہ ہے خرد کا کمال کوئی نہ ہےکرشمہ یہ بے خودی کا
میں اُن نگاہوں کی آڑ لےکر علاج کرتا ہوں تشنگی کا
ہمارے احساسِ خامشی ہی نے رُوپ دھارا ہے نغمگی کا
نہاں ہے ایک ایک جنبشِ لب میں راز دل کی شگفتگی کا
نفس نفس ہے ہوَا کی زد پر، کوئی بھروسا ہے زندگی کا
اِسے جو کہتے ہیں زندگی، ہم نکالتے ہیں غُبار جی کا
کبھی تو حرفِ صدائے جاں کو قُبولیت کی سَند ملے گی
ترِی گلی میں ہے اس حوالے سے اپنا پیشہ گداگری کا
تمہاری آنکھوں کی گردشوں میں بڑی مُروّت ہے ہم نے مانا
مگر نہ اتنی تسلّیاں دو کہ دم نکل جائےآدمی کا
یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ اپنےایوانِ رنگ و بُو میں
ہیں جمع سب مہرو ماہ و انجم، پتا نہیں پھر بھی روشنی کا
ہماری نظروں میں کیا جچے گا، بھلا قیامت کا رنگ اخگرؔ
کہ ہم نے دیکھا ہے ایک منظر کسی کی آنکھوں کی برہمی کا
* * *
No comments:
Post a Comment