پردے پہ جمی رہ گئیں خاموش نگاہیں
یوں بھی پسِ پردہ تیرا چہرا نظر آیا
پیاسا نظر آیا
-
جلوؤں کا جو تیرے کوئی پیاسا نظر آیا
وہ ذات میں اپنی ہمیں دریا نظرآیا
زد پر جو نگاہوں کی وہ چہرا نظرآیا
کُچھ رنگِ حیا اور نکھرتا نظرآیا
یہ حُسنِ تغزّل کا کرشما نظر آیا
وہ جانِ غزل شعرِ سراپا نظرآیا
اک سلسلہء لامتناہی تھا غمِ عشق
ارمان سے ارمان نکلتا نظرآیا
رشکِ مہ و خورشید وہ مٹّی کا دیا تھا
جورُخ پہ ہواؤں کے بھی جلتا نظرآیا
میں نے تو کبھی آپ کو تنہا نہیں دیکھا
میں آپ کو محفل میں بھی تنہا نظرآیا
دل میرا بھر آیا بغمِ ترکِ مُحبّت
خالی تھا مگر جام چھلکتا نظرآیا
پردے پہ جمی رہ گئیں خاموش نگاہیں
یوں بھی پسِ پردہ تیرا چہرا نظر آیا
مُجھ پر تو جمی تھیں ترِی محفل کی نگاہیں
میں وہ تھا کہ محفل میں بھی تنہا نظرآیا
ساقی نے مُجھے خاص نگاہوں سےجو دیکھا
شُعلہ سا مرے جام سے اُٹھتا نظر آیا
اک دُشمنِ ایماں سے ہو اُمّیدِ وفا کیا
کب دشت میں دیوار کا سایا نظرآیا
خوش رنگ ہُوا ،اور تِری یاد کا منظر
پلکوں پہ اگر کوئی ستارا نظرآیا
سُولی پہ چڑھا کوئی، کوئی طُور پہ پہنچا
اخگرؔ تِرے کوُچے سے گزرتا نظرآیا
* * *
No comments:
Post a Comment