تپش سمجھا گیا
-
وہ مُجھے سُوزِ تمنّا کی تپش سمجھا گیا
موم کا پیکر سمجھ کر دھوپ میں ٹھہرا گیا
اس کی بزم ِ گل میں اپنے خانہ ء ویراں کی سمت
'مِیں مثالِ ابر آیا، صورتِ صحرا گیا'
تھا امیرِ شہرگر اپنی جگہ برحق تو پھر
آئنہ جب سامنے آیا تو کیوں گھبراگیا
اب کوئی سفّاک دنیا کے غموں کا غم نہیں
ہم کو تیرا غم سمجھنے کا سلیقا آگیا
کس سے دیکھا جائے گا اس کا جمالِ نَو بہ نَو
ایک جلوہ ہی نگاہِ شوق کو پتھرا گیا
بازیء دل ہم نے یُوں کھیلی بساطِ دہر پر
شہہ پہ شہہ پڑتی رہی، ہر شہہ پہ اک مُہراگیا
چڑھتے سُورج کے پُجاری، کل کے سُورج کو نہ بھُول
وہ بھی سُورج تھا یوں ہی نکلا، چڑھا، اُتراگیا
اب نہ وہ مشتاق نظریں ہیں نہ وہ بیتاب دل
بے محابا آئیے، سانسوں کا وہ پہرا گیا
کچھ عجب تھا تیری بزمِ ناز میں اخگرؔ کا حال
آج اس کو دیر تک کچھ سوچتا دیکھا گیا
* * *
No comments:
Post a Comment