حُسن کو اپنا مقابل بھی دکھانا چاہیے
ایک آئینہ کہیں سے ڈھونڈ لانا چاہیے
حُسن کی نظریں اچانک اُٹھ گئیں دل کی طرف
عشق کو اس حادثہ پر مُسکرانا چاہیے
دُشمنوں سے رہ گئی محفُوظ اپنی زندگی
اس مُہم پر دوستوں کو آزمانا چاہیے
ہم نے یہ مانا محبّت کارِ یَک لمحہ سہی
لیکن اس لمحے کی وسعت کو زمانہ چاہیے
ہر قدم پر تیرا جلوہ دیکھنے کے واسطے
چشمِ حیرت کو نیا آئینہ خانہ چاہیے
صرف ہم پر ہی نہیں فرض اخگرؔ اُسکی یاد
آخر اُس کو بھی ہماری یاد آنا چاہیے
٭
No comments:
Post a Comment