لوگ مِلنے کو چلے آتے ہیں دیوانے سے
شہر کا ایک تعلّق تو ہے ویرانے سے
درد یوں بڑھتا ہے اکثر تِرے سمجھانے سے
جس طرح شمع کی لَو بڑھتی ہے اُکسانے سے
لوگ مِلنے کو چلے آتے ہیں دیوانے سے
شہر کا ایک تعلّق تو ہے ویرانے سے
گردشِ چشم ہی کافی ہے تِری اے ساقی
مُجھ کو صہبا سے غرض کوئی نہ پیمانے سے
رونقِ شہر پر ایسا نہ ہو حرف آئے کہیں
بات صحرا کی نہ کیجیے کبھی دیوانے سے
بارہا شمع کو جلتے ہوئے دیکھا لیکن
جانے کیوں ہم کو عقیدت رہی پروانے سے
سُرخیء گُل سے عبارت ہے تِرا رنگِ حیا
کام لیتا ہوں حقیقت کا میں افسانے سے
چشمِ ساقی کہیں برہم تو نہیں ہے اخگرؔ
لوگ کیا سوچ کے لوٹ آئے ہیں میخانے سے
٭
No comments:
Post a Comment