گُل رنگ دیکھتا ہوں جو دل اور جگر کو میں
اب داد دے رہا ہوں تمہاری نظر کو میں
کیوں آفریں کہوں نہ مذاقِ سفر کو میں
پہچاننے لگا ہوں تِری رہگزرکو میں
آئینہ چُور چُور کیا کِس نگاہ نے
یہ بات کیا بتاؤں اک آئینہ گر کو میں
پُوچھے ہے اِبتدائے محبّت کے واقعات
اب کس لیے حلول کروں چارہ گرکو میں
بُجھنے لگا ہے دشست کی ویرانیوں کا رنگ
ایسے میں لوٹ جاؤں نہ کیوں اپنے گھر کو میں
ہر شے پہ ہے محیط جہاں تک تِرا جمال
محسوس کررہا ہوں وہیں تک نظر کو میں
اخگرؔ نہ بھول جائیں وہ درسِ وفا کہیں
دُہرارہا ہوں سلسلہء چشمِ تر کو میں
٭
No comments:
Post a Comment