آپ کو مُجھ سے مُحبّت تو نہیں
اس فسانے میں حقیقت تو نہیں
ہوس آلود ہے دامانِ وفا
یہ تجارت ہے مُحبّت تو نہیں
میں نے اس بُت کو خُدا مان لیا
بے بسی ہے یہ قناعت تو نہیں
اُن کی آنکھوں میں یہ آنسو کیسے
دل دُکھانا میری فطرت تو نہیں
صبر آجائے گا آتے آتے
دل کا جانا ہے قیامت تو نہیں
آئنے میں ہے فقط آپ کا عکس
آئنہ آپ کی صورت تو نہیں
نم ہوئیں کس لیے آنکھیں اخگرؔ
آرزو حرفِ ندامت تو نہیں
٭
No comments:
Post a Comment