میں وُسعتِ دامانِ نظر دیکھ رہا ہوں
تیرا ہی سراپا ہے جدھر دیکھ رہا ہوں
انجامِ تمنّائے نظر دیکھ رہا ہوں
دنیا کو میں بادیدہء تر دیکھ رہا ہوں
!میری نگہء شوق کی پرواز تو دیکھو
کوئی نہیں موجود مگر دیکھ رہا ہوں
تنہائی کا ایک دشت ہے بس حدِّ نظر تک
لایا ہے کہاں مُجھ کو سفر دیکھ رہا ہوں
ہر زخم ہے مہتاب ہر اک ذرّہ ہے خورشید
حیرت سے تِری راہ گزر دیکھ رہا ہوں
وہ چشمِ کرم لَوٹ رہی ہے مِری جانب
اِک خواب بہ اندازِ دگر دیکھ رہا ہوں
حیرت ہے کہ اخگرؔ میں سرِ بزمِ سُخن بھی
بے مائیگیء اہلِ ہُنر دیکھ رہا ہوں
٭
No comments:
Post a Comment