دل آزاری بانداز پذیرائی بھی ہوتی ہے
غم افزائی کے پردے میں مسیحائی بھی ہوتی ہے
کبھی کثرت برنگِ شانِ یکتائی بھی ہوتی ہے
وہ پردے میں ہیں اور دنیا تماشائی بھی ہوتی ہے
غمِ دل چھُپ نہیں سکتا ہمارے اِک تبسُّم سے
کہ اس دریا کی پایابی میں گہرائی بھی ہوتی ہے
ٹھہر جائے اگر اِک مرحلے پر دل کی بے تابی
یہ بیتابی ہی عنوانِ شکیبائی بھی ہوتی ہے
!نگاہِ شوق کو تم کتنی ہی زنجیریں پہناؤ
قدم بوسی بھی ہوتی ہے جبیں سائی بھی ہوتی ہے
نگاہیں پھیرنے والے پہ نظریں اُٹھ ہی جاتی ہیں
کبھی بیگانگی وجہء شناسائی بھی ہوتی ہے
مزہ آنے لگا ہے اضطرابِ عشق میں اخگرؔ
اب اکثر ناشکیبائی، شکیبائی بھی ہوتی ہے
٭
جستجو: آسان اردو
شِکیب شِکیبائی
فارسی میں اسم 'شکیبب' کے ساتھ حرفِ ندا 'ا' بڑھانے سے 'شکیبا' اسم صفت بنا۔ 'شکیبا' کے ساتھ 'ئی' بطور لاحقۂ کیفیت ملنے سے 'شکیبائی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے 1772ء کو "دیوانِ فغاں" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
1. صبروضبط، برداشت کرنا، تحمل سے کام لینا۔
خودی کے دیدۂ بینا میں دور بینی ہے
خودی کے قلبِ مُصفا میں ہے شکیبائی ( 1987ء، فاران، کراچی، اپریل، 26 )
انگریزی ترجمہ
Patience; long-suffering; toleration
٭
No comments:
Post a Comment