اس طرح عہدِ تمنّا کو گزارے جائیے
اُن کو خاموشی کے لہجے میں پُکارے جائیے
عشق کا منصب نہیں آوازۂ لفظ و بیاں
آنکھوں ہی آنکھوں میں ہر شکوہ گزارے جائیے
دیکھیے رُسوا نہ ہوجائے کہیں رسمِ جنوں
اپنے دیوانے کو اِک پتّھر تو مارے جائیے
جذبۂ دل کا تقاضہ ہے کہ بازی جیت لُوں
احتیاطِ عشق کہتی ہے کہ ہارے جائیے
ہوسکے تو دل کی حالت خود ہی آکر دیکھیے
غیر کی سُنیے نہ کہنے پر ہمارے جائیے
آئنے پر جو گُزرنا ہو گُزر جائے مگر
آپ یُوں ہی زُلفِ برہم کو سنوارے جائیے
کُچھ تو لُطفِ لمسِ آغوشِ تلاطم چاہیے
تا کُجا اخگرؔ کنارے ہی کنارے جائیے
٭
No comments:
Post a Comment