کُچھ تو یکسُوئی تِرا عالمِ یکتائی دے
تُو ہی تنہا ہے کبھی مُجھ کو بھی تنہائی دے
اجنبی ہوں تو مُجھے تابِ شناسائی دے
کُچھ نہ کُچھ سلسلہء شہرتِ رسوائی دے
رہ کے چُپ حالِ دلِ زار سُنانا ہے مُجھے
میرے احساس کو اِک قوّتِ گُویائی دے
نگہِ شوق ہے بے تاب قدم بوسی کو
کُچھ تو مہلت مُجھے اے ذوقِ جبیں سائی دے
نہ قفس ہی میں پڑے رہنے سے جی بہلے ہے
نہ رِہا ہونے کی صُورت کوئی دکھلائی دے
مرہمِ جاں نہیں ملتا اگر اخگرؔ کے لیے
زخم ہی کوئی تِرا دستِ مسیحائی دے
٭
No comments:
Post a Comment