کِس لیے قصّۂ غم کہا کیجیے
بات کوئی نہ سمجھے تو کیا کیجیے
وہ خُدا تو نہیں جو دُعا کیجیے
بُت ہے وہ، بُت سے کیا التجا کیجیے
ابتداء کے لیے انتہا کیجیے
غم دیا ہے تو غم آشنا کیجیے
جَور کی اِنتہا ہو چُکی ہے تو کیا
ازسرِ نو ذرا ابتدا ء کیجیے
اپنے ہی عزم کی روشنی ہے بہت
خضر کا کس لیے آسرا کیجیے
آپ نے عشق کا غم دیا ہے تو پھر
مُہلتِ یک نفس بھی عطا کیجیے
اَبر دریاؤں پر ہی برستا ہے کیوں
دشت پر بارشوں کی دُعا کیجیے
جانتے ہیں وہ اخگرؔ مآلِ وفا
پھر بھی ضد ہے کہ عہدِ وفا کیجیے
٭
No comments:
Post a Comment