جلوہ دکھایا نہیں ہُنُوز
جلوہ بقدرِ ظرف دکھایا نہیں ہُنُوز
آنکھوں میں ہے وہ دل میں سمایا نہیں ہُنُوز
اللہ رے اعتبار کہ اس بے وفا کےبعد
ہم نے کسی کو اپنا بنایا نہیں ہُنُوز
کس واسطے وفا سے اُٹھاؤں میں اپنے ہاتھ
اُس نے سِتم سے ہاتھ اُٹھایا نہیں ہُنُوز
وہ اپنے آپ مُجھ کو بھُلادے گا کس طرح
جو اپنے آپ یاد بھی آیا نہیں ہُنُوز
سرلے کے سُوئے دار چلے بارہا مگر
ہم نے کوئی چراغ جلایا نہیں ہُنُوز
حیرت ہے مُجھ کو اس سے محبّت ہے کس طرح
اُس کا تو لب پہ نام بھی آیا نہیں ہُنُوز
اخگرؔ مِرے وجود میں ہے جو لگی ہوئی
اس آگ کو تو میں نے بجُھایا نہیں ہُنُوز
٭
No comments:
Post a Comment