فُغاں اور
کچھ دن جو رہا سلسلہء ضبطِ فُغاں اور
بڑھ جائیگی تابندگیء داغِ نِہاں اور
آنکھوں میں اب اشکوں کی جگہ خون ہے پھر بھی
بے مائیگیِ دل کا تقاضا ہے کہ ہاں اور
مُدّھم ہوئی جب ذہن میں کیفیّتِ سجدہ
دل پر اُبھر آئے تِرے قدموں کے نشاں اور
آنکھوں میں جو آنسو ہیں، تو لب پر ہےتبسّم
کیا خوب تِرا غم ہے عیاں اور نِہاں اور
جتنی ہی ملی دل کو غمِ عشق کی وُسعت
محدُود ہوا سلسلہء لفظ و بیاں اور
اظہار پہ بھاری ہے خموشی کا تکلّم
حَرفوں کی زباں اور ہے، آنکھوں کی زبان اور
چپکے سے پھر آجائیں مِرے پاس وہ اخگرؔ
اِک برق چمک جائے سرِ خلوتِ جاں اور
٭
No comments:
Post a Comment