دیا بُجھا ہوا
-
دل کی مِرے بساط کیا، ایک دِیا بُجھا ہُوا
تم نے اسے بجا کہا، ایک دِیا بُجھا ہُوا
سر پہ محیط کی گئیں، سارے جہاں کی ظلمتیں
'اور مجھے دے دیا گیا، ایک دیا بُجھا ہوا'
ہم نے تو گُل کیے تھے خود اپنی اُمّید کے چراغ
آپ نے کیوں جلادیا، ایک دیا بُجھا ہُوا
دل سے نہ میرے پُوچھیے، عالمِ ترکِ آرزو
طاق میں جیسے رہ گیا، ایک دیا بُجھا ہُوا
آئینہء وجود میں خود کو جو دیکھنے گیا
میرا ہی عکس بن گیا، ایک دیا بُجھا ہُوا
جب یکے بعد دیگرے، سارے چِراغ بُجھ گئے
آپ ہی آپ جل اُٹھا، ایک دِیا بُجھا ہُوا
آپ کی کیا مثال دوں، آپ تو بے مثال ہیں
اور مِری مثال کیا، ایک دیا بُجھا ہُوا
میں نے تو اُس کو بخش دی، قلب و نظر کی روشنی
اُس نے خیال کو دیا، ایک دیا بُجھا ہُوا
عشق میں خاک ہوکے بھی، اخگرؔ اِک آگ سے رہی
مُجھ میں بہر نفس جلا، ایک دیا بُجھا ہوا
* * *
No comments:
Post a Comment