عارض رنگیں کہنے میں توصیف تو ہے تشبیہہ نہیں
پھول پہ آئے اسکی شباہت پھول کی اُس پر آئے کم
درد اگر ہوجائے کم
-
حالِ دل بیمارسمجھ میں چارہ گروں کی آئے کم
بے چینی ہوجائے زیادہ درد اگر ہوجائے کم
اشک نکل جائیں تو یقیناً شدّتِ غم ہوجائے کم
دل کا جھلس جانا لازم ہے آہ جو لب پر آئے کم
مُجھ کو ہے تسلیم قفس میں پھولوں کے ہیں سائے کم
ہائے مگر وہ جن کو چمن کی آب و ہوا راس آئے کم
راہِ طلب میں ہر منزل پر ہو تجدید عزمِ سفر
رہرو کو آرام نہ آئے اور جوآئے آئے کم
قامتِ فن کی بات الگ،معیارِ ھنر کی بات الگ
شہرِ سُخن گنجان ہے لیکن ہیں میرے ہمسائے کم
اپنے عیب سے واقف ہونا، سب سے بڑا ہے کارِ ہُنر
آدمی خود آئینہ دیکھے اوروں کو دکھلائے کم
پوُچھنے والو!۔ حال نہ پوُچھو عشق میں اب یہ عالم ہے
خود پر ہنسنا آئے زیادہ دل پر رونا آئے کم
عارض رنگیں کہنے میں توصیف تو ہے تشبیہہ نہیں
پھول پہ آئے اسکی شباہت پھول کی اُس پر آئے کم
شہرِ نفس سے وادیٔ جاں تک سیکڑوں نازک رشتے ہیں
سانس نہ رُکنے پائے اخگرؔ درد نہ ہونے پائےکم
٭
No comments:
Post a Comment