شکستہ دل رہے ہم
-
پریشان و شکستہ دل رہے ہم
ذرا تُجھ سے اگر غافل رہے ہم
سفر میں ہر قدم شامل رہے ہم
کبھی جادہ کبھی منزل رہے ہم
مآلِ عشق سے غافل رہے ہم
محبّت میں شگفتہ دل رہے ہم
کیا تھا، ہم نے ہر مشکل کو آساں
سو آسانی میں بھی مُشکل رہے ہم
مُحبّت میں سوالِ آرزو کیا
ہمیشہ صورتِ سائل رہے ہم
یہ کیا کم ہے کہ اس کی انجمن میں
چراغوں کی طرح شامل رہے ہم
محبّت تجھ سے کی اور اس قدر کی
کہ اپنے آپ سے غافل رہے ہم
ٹھہر جاتا تھا دل آنسو بہا کر
اب اس کےبھی کہاں قابل رہےہم
محبّت نام ہے طوفاں کا اخگرؔ
کہاں شرمندۂ ساحل رہے ہم
٭
No comments:
Post a Comment