آدیکھ بغیرِ دار و رسن اعلانِ مُحبّت آج بھی ہے
اے دوست مِری خاموشی میں آہنگِ صداقت آج بھی ہے
خاموش ہیں لب، ساکت چہرہ، غم کی وہی صورت آج بھی ہے
اِک شکوۂ ناگفتہ اُن سے ازراہِ مُحبّت آج بھی ہے
ہم لاکھ بھُلائیں اُس کو مگر، جاتا ہے کہاں اُلفت کا اثر
کِیا ترکِ تعلّق کام آیا، اُن سے مُحبّت آج بھی ہے
یہ حُسنِ طلب کا حاصل ہے، یا جُوشِ طلب کی ناکامی
اِک زخم سا اپنے سینے میں اس دل کی بدولت آج بھی ہے
کتنے ہی مَہ و سال آئے گئے آنکھوں نے اُسے دیکھا ہے
وہ قامتِ سادہ اے اخگرؔ رنگوں سے عبارت آج بھی ہے
٭
No comments:
Post a Comment