تصوّرات میں بے پردہ آرہا ہے کوئی
حجاب میری نظر سے اُٹھا رہا ہے کوئی
ٹھہر ٹھہر کے نگاہیں مِلا رہا ہے کوئی
سنبھل سنبھل کے مُجھے آزما رہا ہے کوئی
اب اِمتحانِ نظر ہے خُدا ہی خیر کرے
کہ بے نقاب سرِ بزم آرہا ہے کوئی
یہی کہوں گا کہ میں یاد کررہا ہوں اُسے
یہ کیوں کہوں کہ مُجھے یاد آرہا ہے کوئی
کسی کا نام ہے اِک اِک نفس کی دھڑکن میں
بہت قریب ہے شاید بلارہا ہے کوئی
!یہ حُسن و عشق کا رنگِ تضاد کیا کہیے
بھُلا رہا ہوں مگر یاد آرہا ہے کوئی
غنیمِ ہوش ہیں چلمن کی آہٹیں اخگرؔ
نہ چھُپ رہا ہے نہ جلوہ دکھا رہا ہے کوئی
٭
No comments:
Post a Comment