پلکوں پہ آرہے ہیں
ہزار آنسو امنڈ امنڈ کر ہماری پلکوں پہ آرہے ہیں
کوئی تہی دامنوں سے کہدے کہ ہم خزانے لُٹا رہے ہیں
نہیں غم اِس کا کہ ہر نفس پر وہ لذّتِ غم بڑھارہے ہیں
ہمیں تو اس بات کی خوشی ہے کہ وہ ہمیں آزمارہے ہیں
نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم نہ کوئ پُرسانِ غم ہے پھر بھی
نہ جانے کیوں دل یہ کہہ رہا ہے وہ آرہے ہیں وہ آرہے ہیں
طراوشِ خوں کی سُرخیوں سے یہ رات کی محفلیں سجی ہیں
مِرے لہو کے دیے جلا کر وہ جشنِ عشرت منارہے ہیں
نہ کوئی عالم نہ کوئی منظر، تھی ایک سکتے میں چشمِ حیرت
نقاب اُلٹ کر وہ آگئے ہیں تو آئنے گُنگُنا رہے ہیں
یہ کس نے چھیڑا ہے سازِ اُلفت کہ اب حیا سے کسی کے رُخ پر
ہزارہا رنگ آرہے ہیں، ہزارہا رنگ جارہے ہیں
چمن کو ہم چھوڑ آئے اخگرؔ ہیں اشک رنگیں تو چشم تر میں
برس رہی ہیں ہماری آنکھیں صلہ محبّت کا پارہے ہیں
٭
جستجو نوٹس:
طَراوِش [طَرا + وِش] (فارسی)
متغیّرات
تَراوِش [تَرا + وِش]
اسم کیفیت
ٹپکنے یا ٹپکانے کا عمل، بارش، ترشح، ہلکی بوندا باندی۔
No comments:
Post a Comment