عشق رُسوا بھی نہیں
کُو بہ کوُ کیوں عشق رُسوا بھی نہیں
ہم نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں
اسقدر پھیلا تمنّا کا حصار
دل کو اب تیری تمنّا بھی نہیں
زندگی اس سے عبارت ہوگئی
ایک وہ لمحہ جو گُزرا بھی نہیں
کارِ دنیا ہے ہمیں پر منحصر
اُٹھ گئے گر ہم تو دنیا بھی نہیں
جس قدر ہنگامۂ محفل ہے اب
اس قدر ہم لوگ تنہا بھی نہیں
شوقِ اظہارِ تمنّا درکنار
اب تو احساسِ تمنّا بھی نہیں
یہ بھی ہو شاید کوئی کارِ بہار
شاخ پر اب ایک پتّا بھی نہیں
اِک تبسّم ہی پہ ہوجائے تمام
دل کا سودا اتنا سستا بھی نہیں
ٹوٹ کر کتنے سِتارے گِر گئے
آپ نے دامن تو جھٹکا بھی نہیں
اُس سے اخگرؔ اب ہے اتنا واسطہ
'مُدّتیں گزریں کہ دیکھا بھی نہیں'
٭
No comments:
Post a Comment