منصور سے ہوسکتی ہی نہیں
-
تکمیلِ جنوں تنہا تو کسی منصور سے ہوسکتی ہی نہیں
میں کیا اور میری بساط ہی کیا میری تو کوئی ہستی ہی نہیں
احساسِ گُماں، امکانِ یقیں، سب کچُھ ہے مگر ہستی نہیں
کچھ اتنی ملی ہیں تعبیریں اب خواب کوئی باقی ہی نہیں
آدابِ نظر بھی عائد ہیں، دستورِ زباں بندی ہی نہیں
اس بزم میں ہم کیا بات کریں، جب بات کوئی بنتی ہیں نہیں
بے معنی ہے،لاحاصل ہے، وہ بات جو ہوسکتی ہی نہیں
جب تیری تمنّا کر نہ سکے پھر کوئی تمنّا کی ہی نہیں
اس بات پہ ہے وہ ہم سے خفا، کیوں ترکِ تمنّا کربیٹھے
ہم ترکِ تمنّا کیا کرتے، جب کوئی تمنّا کی ہی نہیں
تبدیلیء رنگِ فسانہ کی تجویز مناسب ہے لیکن
مضمون بھی سارا بدلے گا، سرکار فقط سُرخی ہی نہیں
سوچا تھا فسانے کی سُرخی اشکوں سے میں اُس کے دامن پہ لکھوں
اب دل کا یہ عالم ہے اخگرؔ اک بُوند لہو باقی ہی نہیں
٭
No comments:
Post a Comment