مآلِ جُستجو تھا
-
یہی شاید مآلِ جستجو تھا
غبار اک ناتواں سا کُوبکُو تھا
جوآئینے میں میرے رُوبَرُو تھا
وہ تجھ جیسا ہی کوئی ہُو بَہُو تھا
سحرِ دم خواب میں ساقی کو دیکھا
وہ میرے رُوبَرُو، میں قبلہ رُو تھا
وہ عالم یاد تو ہوگا تجھے بھی
ہمیں ہم تھے جہاں یا تُو ہی تُو تھا
چمن میں بھی کہاں آزاد تھا میں
گرفتارِ فریبِ رنگ و بُو تھا
سُکوتِ لب کی کیفیّت نہ پوچھو
خموشی میں فسونِ گفتگو تھا
سرِ محشر کہے گی تیغِ قاتل
سرِ مقتل میں کتنا سُرخرُو تھا
کسی منزل پہ بھی منزل نہ پائی
یہی میرا مآلِ جستجو تھا
وہی ننگِ چمن ٹھہرے ہیں اخگرؔ
لہو جن کا چمن کی آبرو تھا
* * *
No comments:
Post a Comment