نہ سنا گیا فسانا
-
وہ سنا رہے تھے لیکن، نہ سنا گیا فسانا
ذرا آنکھ لگ گئی تھی کہ گزرگیا زمانا
غمِ نوَ بہ نوَ کی زد سے ہے محال دل بچانا
کبھی دُکھ کے تازیانے ، کبھی درد کا فسانا
اِسی کشمکش میں اُلفت کا گزرگیا زمانا
کبھی آپ ہچکچائے کبھی دل کہا نہ مانا
کہیں تم بھی ہو نہ جانا مِری حیرتوں میں شامل
مُجھے آئینہ بنا کر مِرے روبرو نہ آنا
وہ بہارِ تازہ بنکر جو اَدا سے آرہے ہیں
ہے اُنھیں چمن میں شاید کوئی اور گُل کھِلانا
ہیں نئے نئے تصوّر تو نئی نئی ہے قامت
کسی جسم پر نہیں ہے کوئی پیرہن پُرانا
رہ و رسمِ عاشقی میں یہ ہے اپنا حال اخگرؔ
کبھی دوسروں پہ ہنسنا کبھی خود پہ مُسکرانا
* * *
No comments:
Post a Comment