تم خُود ہی محبّت کی ہر اِک بات بھُلادو
پھر خود ہی مجھے ترکِ محبّت کی سزا دو
ہمّت ہے تو پھر سارا سمندر ہے تمہارا
ساحل پہ پہنچ جاؤ تو کشتی کو جلادو
اقرارِ محبّت ہے نہ اِنکارِ محبّت
تم چاہتے کیا ہو، ہمیں اتنا تو بتادو
کھُل جائے نہ آنکھوں سے کہیں رازِ محبّت
اچھّا ہے کہ تم خود مُجھے محفل سے اُٹھادو
سچّائی تو خود چہرے پہ ہوجاتی ہے تحریر
دعوے جو کریں لوگ تو آئینہ دکھادو
انسان کو انسان سے تکلیف ہے اخگرؔ
انسان کو تجدیدِ مُحبّت کی دُعا دو
٭
No comments:
Post a Comment