ہم پر وہ مہرباں ہیں، مگر کس ادا کے ساتھ
ترکِ سِتم بھی کرتے ہیں، ترکِ وفا کے ساتھ
اِحساسِ حُسن، شرمِ جفا، اعترافِ شوق
ہیں کتنے رنگ اِک تِرے رنگِ حیا کے ساتھ
تیرے سِوا ہوئی جو کسی اور کی طلب
تاثیر اُٹھ گئی، مِرے دستِ دُعا کے ساتھ
اُس کی خبر نہیں ہے تُجھے، اے سُبُک خِرام
منزل بھی چل رہی ہے تِرے نقشِ پا کے ساتھ
کیا جانے کس کے دوش پہ وہ زُلف کھُل گئی
خوشبو سی ایک آئی ہے بادِ صبا کے ساتھ
ہر اہلِ دل شریک ہے، اس کارِ خیر میں
کتنوں کے جُرم ہیں مِرے جُرمِ وفا کے ساتھ
اخگرؔ یہ رہروؤں کی سیاست تو دیکھیے
رہزن کے ساتھ ہیں تو کبھی رہنما کے ساتھ
٭
No comments:
Post a Comment