بے سایہ و تصویر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
تنویر ہی تنویر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
جو کثرتِ تاثیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
بس ایک ہی تصویر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
انجامِ محبّت سے بھی انجان نہیں ہوں
دیوار پہ تحریر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
شہرہ تھا بہت سلسلہء موسمِ گُل کا
زنجیر ہی زنجیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
سازش میں ہے مصروف، ہر اِک گام پہ تدبیر
جو عشق کی تقدیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
ممکن ہے ترے دل میں بھی ہو نقشِ عداوت
ماتھے پہ جو تحریر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
اخگرؔ جو دعا دل سے نکلنے بھی نہ پائی
شرمندۂ تاثیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
٭
No comments:
Post a Comment