بسکہ قائل ہی نہ تھا ناکامیٔ تدبیر کا
دل کو اندازہ نہ تھا سنگینیٔ تقدیر کا
دیکھتا ہے وہ جسے اکثر نگاہِ لطف سے
مجھ سے تو بہتر مقدر ہے مری تصویر کا
ہر طرف ہیں خانہ بربادی کے منظر بے شمار
کچھ ٹھکانا ہے، بھلا اس جذبۂ تعمیر کا
شرط ربطِ باہمی ہونا تھی سو پوری ہوئی
میری رسوائی ہوئی باعث تری تشہیر کا
شرطِ شیریں ہے نہ تیشہ ہے نہ کوئی کوہ کن
منقطع ہے سلسلہ مجنوں سے بھی زنجیر کا
تاکجا یہ سیرِ دنیائے تصوّر خود فریب
تا بہ کہ یہ کھینچنا تصویر سے تصویر کا
شوق کے پابند ہم، دیوانگی ان کو پسند
کیوں نہ ہو نازاں ہر اک حلقۂ مری زنجیر کا
وارداتِ عشق اخگرؔ اور غزل کے روپ میں
کھینچنا ہے غم کی جیتی جاگتی تصویر کا
٭
No comments:
Post a Comment