قمر علی عبّاسی، نیویارک
حنیف اخگر وہاں غزل سرا ہیں !۔۔
کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں اردو ٹائمز نے دوسری اردو عالمی کانفرنس منعقد کی تھی۔
دنیا بھر سے شاعر‘ ادیب‘ دانشور جمع تھے ، ہرطرف اردو کے پھول مہک رہے تھے کانفرنس کے آخری دن حسب روایات مشاعرہ تھا۔ اسی دن ہمارے دوست کی بیٹی کی شادی تھی شعر ہماری کمزوری ہے۔ مشاعرہ سننا ہمیں محبوب ہے اس شام مشاعرے میں ہمارے پسندیدہ شاعر حنیف اخگرملیح آبادی بھی شامل تھے ہم انہیں‘ ان کے شعر اور ترنم پسند کرتے ہیں جب وہ پڑھتے ہیں یوں لگتا ہے ہم نوجوانی کے گلی کوچوں میں اتر گئے ہیں جہاں رنگ ہیں روشنیاں ہیں اور اور خوشبوئیں اڑی اڑی پھرتی ہیں ہم خواب دیکھتے ہیں شاعری سامان پیدا کرتی ہے آنکھیں بند کئے بغیر پھولوں سے بھری پگڈنڈی پر چل پڑیں۔
ایک زمانہ تھا ہم مشاعروں میں اس لئے جاتے تھے کہ ہر شعر ہمیں تازگی اور مسرت کا احساس دلاتا تھا پھر یہ ہوا کہ زمانے کے اور وقت کے پردے گرتے رہے۔ مشاعرے کی روایات بدل گئیں وہ لوگ جو اپنے ترنم سے ایک نئی دنیا دکھاتے تھے رخصت ہوئے ہم جب امریکہ آئے تو یوں لگا ہم کولمبس ہیں ہماری کھوئی ہوئی دنیا مل گئی حنیف اخگر کی آواز میں وہ موسم اور چمکیلے دن واپس آگئے اور اس دن کے مشاعرے میں بھی وہ ہمیں اس دنیا کی سیر کرانے والے تھے۔
مشاعرے کا آغاز رات کے نو بجے ہوا اسی وقت شادی کا بلاوا تھا ہمارا جانا ضروری تھا ہمیں یقین تھا شادی کی تقریب کے بعد جب واپس آئیں گے مشاعرہ جاری ہوگا حنیف اخگر کی صدارت تھی اس لئے امید تھی کہ ہم انہیں سن سکیں گے۔ شادی کی تقریب میں ہم بار بار وقت دیکھ کر پریشان ہورہے تھے ہمارے یہاں وہ تقریب اچھی سمجھی جاتی ہے جو دیر سے شروع ہوکر دیر سے ختم ہو بارہ بجے کے بعد ہم کھڑے ہوگئے۔ بس اب جانا ہے، جب مشاعرہ گاہ پہنچے ابھی کئی شاعر باقی تھے خیال تھا سننے والے چندرہ گئے ہوں گے لیکن اس بات کی خوشی ہوئی کہ سامعین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی وقت آگے بڑھا۔ حنیف اخگر نے اپنی غزل ترنم سے پڑھنی شروع کی ہم نے آنکھیں بند کرلیں اور دیکھا ایک نوجوان لڑکا رم جھم بارشوں میں بھیگتا گلیوں سے گزر رہا ہے وہ شاخ شاخ میں گجرے لٹکائے درختوں کے درمیان کھڑا ہے۔ رات کا آخری پہر ہے چاندنی پیڑوں کے پتوں پر سو رہی ہے اور وہ لڑکا دروازے کی منڈیر سے بیٹھا ہے پھر یہ ہوا کہ زرد پتے ہوا اڑائے لئے پھرتی ہے اور سارے رنگ مدہم پڑگئے ہیں۔ دنیا کو سنوارنے نکھارنے اور اس کی تصویریں بنانے کیلئے شعر کافی ہیں ہم آنکھیں بند کرکے جانے کب تک اس بستی میں ٹھہرے رہے جہاں بادل خوبصورت چہرے بناتے ہیں اور ٹھنڈی ہوائیں جسم کو تازگی پہنچاتی ہیں پھر یہ ہوا کہ سارے موسم سارے خواب آنکھ کھول کر دیکھنے لگے حنیف اخگر کا ترنم ختم ہوا تو ہم اس دنیا میں لوٹ آئے جہاں ہم رہتے ہیں۔
مشاعرے کے بعد کی روایات یہ ہیں کہ اکثر لوگ گھر نہیں جاتے ہیں کسی میز کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں پھر باتوں کا سلسلہ ہوتا ہے حنیف اخگر کے چھوٹے بھائی منیف اشعر ہمارے نوجوانی کے ساتھی ہیں وہ چاہتے تھے اپنے بھائی کو گھر لے جائیں تاکہ آرا م کرسکیں وہ انہیں بزرگ سمجھتے ہیں سوچا ہوگا تھک جائیں گے لیکن حنیف اخگر اس عمر کے ہیں جس میں پھول پیتے ہیں چاند چھوتے ہیں وہ نوجوانوں سے زیادہ توانا تروتازہ ہیں جب محفل سجاتے ہیں یوں لگتا ہے کسی نے پرانے مکان کا دروازہ کھول دیا اور اندر ایک نیا سجا سجایا ڈرائنگ روم جہاں آتش دان میں آگ روشن ہے اور میز پر کافی کا بھرا کپ مہک اڑا رہا ہے، حنیف اخگر اس لئے نوجوان ہیں کہ وہ شعر کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے لفظوں کے مقدر میں خزاں نہیں لکھی تحریر کبھی بوڑھی نہیں ہوتی اور اس سے وابستہ شخص پر ماہ و سال اثر نہیں کرتے اسکے اندر ایک اٹھارہ سال کا نوجوان ہنستا مسکراتا گرم دھوپ‘ ٹھٹھرتی سردی اور مہاوٹوں کی بارش سے لطف اندوز ہوتا ہے اسے سب موسم اچھے لگتے ہیں وہ سب کو پسند کرتا ہے سب اس کو چاہتے ہیں، حنیف اخگر ملیح آباد کے ہیں وہاں کی زمین کی یہ تاثیر ہے کہ اس کے پھل اور لوگ میٹھے ہوتے ہیں وہاں کے آم دنیا کے کونے کونے میں پسند کئے جاتے ہیں۔
ملیح آباد لکھنئو کے نزدیک ہے اور وہاں کی لہجے کی مٹھاس‘ ادب آداب‘ روایت وثقافت حنیف اخگر کے کلام میں ہر لفظ سے جھلکتی ہے وہ قدیم اور جدید شاعری کے درمیان رنگوں کا ایک پل ہیں نقطوں کا احترام ‘ان کا وقار سمجھنے والا‘ انہیں تاج پہنانے والا‘ انہیں گوندھ کر شعر بنانے والے حنیف اخگر مشاعروں کی جان ہیں کسی محفل میں ان کی موجودگی اس کے افتخار میں اضافہ کرتی ہے۔
حنیف اخگر نیویارک میں تھے پھر وہ ڈیلس چلے گئے ایک مشاعرے میں ملے تو کہا میں نے وکیل انصاری کے ہاتھ آپ کو اپنے دیوان بھجوائے تھے آپ کو ملے؟ ہم نے کہا مل گئے۔ وہ خوش ہوگئے کہنے لگے ”آپ پڑھ کر بتائیے گا“۔ ہم نے کہا ”آپ جانتے ہیں ہماری کمزوری شعر ہیں اور شاعر بھی جو آپ ہیں“۔ وہ ہنسنے لگے۔ ایک بار وکیل انصاری کے گھر دعوت تھی بہت سے لوگ مدعو تھے حنیف اخگر بھی آئے تھے ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا میزکے ایک سرے پر حنیف اخگر بیٹھے تھے اور دوسرے سرے پر مامون ایمن تھے اور دونوں ہری مرچیں کھا رہے تھے
یوں لگتا تھا جیسے مقابلہ ہورہا ہے ہمیں یوں لگا یہ تو ہم ہیں نوجوانی میں ایسے کتنے ہی مظاہرے کرتے تھے۔ کل عرفان مرتضیٰ کی ای میل ملی کہ حنیف اخگر ڈیلس میں نہیں ہیں۔ ہم نے ان کے چھوٹے بھائی منیف اشعر کو ٹورانٹو فون کیا حنیف اخگر وہاں بھی نہیں تھے سوچا شاید دوحا کے مشاعرے میں گئے لیکن پتہ چلا وہاں بھی نہیں گئے پاکستان سے بھی یہی خبر ہے کہ وہاں نہیں ہیں۔ کسی کو خبر نہیں کہ وہ کہاں ہیں؟
لیکن ہم جانتے ہیں جنت میں ایک مشاعرہ ہورہا ہے۔ مرزا غالب کی صدارت ہے۔ پہلے احمد ندیم قاسمی کا نمبر آیا پھر منیر نیازی کو بلوایا پھر شبنم رومانی کی آواز پڑی اور ابھی ابھی ناظم مشاعرہ نے اعلان کیا ہے۔ ”حنیف اخگرملیح آبادی اپنی غزل پیش کرتے ہیں“۔
٭
No comments:
Post a Comment