سوزِ دروں نہ سلسلۂ چشمِ تر میں ہے
جو اہتمامِ درد تیری اِک نظر میں ہے
یُوں میرے دل کا درد کسی کی نظر میں ہے
جس طرح آئینہ کفِ آئینہ گر میں ہے
ہیں تنگ اس پہ لفظ و معانی کی وسعتیں
جو وسعتِ ہُنر مِرے عرضِ ہُنر میں ہے
توہینِ بے سبب نے یہ مژدہ دیا مجھے
رُتبہ مِرا بھی کوئی تمہاری نظر میں ہے
رنگِ سحر میں بھی نہیں ملتی کبھی کبھی
وہ ایک روشنی جو اُمّیدِ سحر میں ہے
دیکھیں اب اس سے جام بنے یا کسی کا دل
مٹّی تری زمیں کی کفِ کُوزہ گر میں ہے
یارب عتابِ دوست کا مضموں نہ ہو کوئی
لرزش سی آج گفتگوئے نامہ بر میں ہے
اخگرؔ بساط کوئی ہماری نہیں مگر
'سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے'
٭
No comments:
Post a Comment