سحرؔ انصاری
حنیف اخگرؔ کی غزل
اُردو غزل نیم وحشی صِنفِ سُخن اور شاعری کی آبرو جیسی دو انتہاؤں کے درمیان سانس لیتی ہوئی ایک ایسی حیات آفرین فضا تک آگئی ہے جس میں مشرق و مغرب کے تازہ نفس تجربے، اپنی ایک نئی شناخت قائم کرنے لگے ہیں۔ اُردو کے مُستند مراکز سے دُور بھی اُردو غزل اپنی اِیمائیت اور رَمزیّت کے ساتھ نہ صرف زندہ ہے، بلکہ قوسِ قزح کی طرح اُس کے ہر منفرد رنگ کی پہچان بھی ممکن ہوجاتی ہے۔
سیّد محمّد حنیف اخگرؔ اپنی پرانی تہذیبی روایات کے ساتھ نئی دنیا میں آباد ہیں۔ وہ آئینہء امروز میں ماضی کے خدوخال کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ مستقبل کی سَمت نمائی کے امکانات بھی روشن ہوجاتے ہیں۔ حنیف اخگرؔ ایک مہذّب، شائستہ، اور وضع دار انسان ہیں۔ انہوں نے قدحِ غزل کے جوش سے بزمِ سُخن چراغاں کررکھی ہے۔ انہیں شعر و شاعری کے محفلوں میں اعتبار حاصل ہے۔ اور مشاعرے میں شمع جب اُن کے سامنے لائی جاتی ہے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اُن کا کس درجہ احترام کیا جاتا ہے۔ حنیف اخگرؔ جس اجنبی ماحول کو مانوس بنانے کی سعی کررہے ہیں وہاں تخلیقی انہماک کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد بھی ضروری ہے۔ اس ضمن میں بھی حنیف اخگرؔ کی مساعی کو پوری اُردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
حنیف اخگرؔ کی غزل کے مطالعے سے اوّلین تأثر یہی مُرتّب ہوتا ہے کہ انہوں نے روایت کے پاکیزہ اجزاء کو ایک خاص رکھ رکھاؤ کے ساتھ اپنی غزل میں سمویا ہے۔ حنیف اخگرؔ کی غزل اپنی فضا اور کیفیات کے لحاظ سے روایت کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ لیکن اُن کے مضامینِ شعری رسمی یا مصنوعی نہیں ہیں۔ غزل کے مخصوص علائم سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے ذاتی تجربات و محسوسات کی نمائندگی کی ہے۔
حنیف اخگرؔ نے یوں تو غزل کی ساری روایت کا غائر جائزہ لے کر اُس کے معتبر رویّوں سے استفادہ کیا ہی ہے، لیکن مجھے ان کی غزل کا مطالعہ کرتے ہوئے خاص طور پر جگرؔ مرادآبادی، اور آرزوؔ لکھنوی کی یاد آئی۔ ان دو2 اہم غزل گو شعراء
کا ایک خوشگوار پرتو حنیف اخگرؔ کی غزل میں نظر آتا ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ حنیف اخگرؔ کی انفرادیت اس میں گم نہیں ہوئی ہے۔ بالکل ایسا ہے جیسے فانیؔ نے میرؔ و غالبؔ کی معنوی و اسلوبی یکجائی کے باوجود اپنی انفرادیت ہر جگہ برقرار رکھی ہے۔
حنیف اخگرؔ کے انفرادی رنگِ سُخن کی چَند جھلکیاں دیکھیے
نگاہیں پھیرنے والے یہ نظریں اُٹھ ہی جاتی ہیں
کبھی بیگانگی وجہء شناسائی بھی ہوتی ہے
عجب ہے عالم، عجب ہے منظر، ایک سکتے میں ہے چشمِ حیرت
نقاب اُلٹ کر وہ آگئے ہیں، تو آئینے گُنگنا رہے ہیں
آنکھوںمیں جل رہے تھے دیے اعتبار کے
احساسِ ظلمتِ شبِ ہجراں نہیں رہا
اس لہجے میں شائستگی اور تہذیب کی روشنی ہے۔ اس غزل میں زندگی سے محبّت ہے، اور اسے نئے پیرایوں سے دیکھنے اور اپنے اندازِ نظر کو دوسروں کی نگاہوں میں منتقل کردینے کی خواہش پائی جاتی ہے۔
حنیف اخگرؔ اقدارِ حیات کو عزیز رکھتے ہیں۔ اور اُن سے اپنی نسبت کو مُدّھم یا بے اثر نہیں ہونے دیتے
جو ہے تازگی مِری ذات میں، وہی ذکروفکرِ چمن میں ہے
کہ وجود میرا کہیں بھی ہو، مِری رُوح میرے وطن میں ہے
جو کَشودِ کار طلسم ہے، وہ فقط ہمارا ہی اسم ہے
وہ گِرہ کسی سے کھُلے گی کیا، جو تِری جبیں کی شکن میں ہے
حنیف اخگرؔ کی غزل میں کَشوُدکارِ طلسم کی یہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ تغزّل اور رمزیّت کو قائم رکھتے ہوئے جدید زندگی کے نشیب و فراز اور گرم و سرد کے ذائقے بھی اپنے اشعار میں پیش کرتے جاتے ہیں۔ سیاست ہو یا معاملاتِ زندگی ،اقدار کی شکست و ریخت کا مسئلہ ہو یا وفاداری اور بے وفائی کی کشاکش، حُسن و عشق کی وہ کیفیات ہوں جن کے بغیر غزل میں سوز و تأثّر پیدا نہیں ہوتا۔ یا آشوبِ آگہی کا کوئی اور ماجرا، ہر جگہ حنیف اخگرؔ اپنے لب و لہجہ کی نرمی اور شائستگی کا جادو جگاتے نظر آتے ہیں۔ ان کی خوبی اور انفرادیت اس ہُنر میں ہے کہ وہ بھی اصغرؔ کی طرح ' جو غم ہوا، اُسے غمِ جاناں بنا لیا' کے
قائل ہیں۔ اور زندگی کے ہر تجربے کو غزل کے پیرائے میں بیان کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔
غالبؔ کے ہاں شاعری کا ایک بڑا وصف یہ تھا کہ معنی سے ذہن کو جگمگا دیا جائے۔ جسے اس نے معنی کے چَراغاں سے تعبیر کیا تھا۔ غزل کی موجودہ تخلیقی فضا میں کون ہے جو غالب سے اثر پذیرنہیں، اور جو اس کے مشَالیوں کی چھُوٹ اپنے ہاں نہیں دیکھنا چاہتا۔ حنیف اخگرؔ کے چراغاں میں بھی ایک روشن معنویت ملتی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ 'چَراغاں' کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی۔ اور حنیف اخگرؔ کا یہ دعویٰ اپنی دلیل آپ ٹھہرے گا
بزم کو رنگِ سُخن میں نےدیا ہے اخگرؔ
لوگ چُپ چُپ تھے مری طرزِ نوا سے پہلے
* * *
No comments:
Post a Comment